عافیہ صدیقی
Aafia Siddiqui |
لیڈی القاعدہ کے نام سے پکاری جانیوالی پاکستانی قیدی کو ایک سال سے سنا نہیں گیا ، جس کی وجہ سے اس کی خیریت کے بارے
میں خدشات شروع ہو گئے ۔
تقریبا ایک سال سے زیادہ ہوچکا ہے جب کسی نے پاکستانی نیورو سائنسدان عافیہ صدیقی کی بات نہیں سنی ، جو امریکی ریاست
ٹیکساس کے ایک جیل میڈیکل سنٹر میں قید ہیں ۔
امریکن انتظامیہ کے مطابق عافیہ صدیقی کو سن 2008 میں افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا اور بگرام ائیر بیس میں قید رکھ
کر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ،اسی دوران عافیہ پر گولی بھی چلائی گئی جس سے وہ شدید زخمی ہو گئیں اس کے بعد انھیں امریکہ
لے جایا گیا جہاں انھیں دو امریکی فوجیوں کے قتل کی کوشش کے الزام میں 86 سال قید کی سزا سنائی گئی ۔ وہ افغانستان میں کیسے
گئیں یہ بڑی حد تک ایک معمہ ہے۔
عافیہ صدیقی کراچی پاکستان میں پیدا ہوئیں ،انھوں نے 1990 میں میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجیMIT)) امریکہ
میں تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے والدین نے ان کی شادی ڈاکٹر امجد سے کر دی ۔قدرت نے عافیہ کو دو
بیٹوں سے نوازا تھا ۔2001 میں 9-11 کا واقعہ ہو گیا ۔ عافیہ 2002میں پاکستان واپس آ ئیں اسی دوران کی طلاق ہو گئی ان
کا خاوند CIA کا ایجنٹ بن گیا جبکہ اسی دوران عافیہ کا ایک اور بیٹا پیدا ہوا تھا ۔ 2003 میں ملازمت نہ ملنے کی وجہ سے دوبارہ
امریکہ دورے پر گئیں اور 2003 میں ہی واپس پاکستان چلی آ ئیں ۔کیونکہ امریکن چاہتے تھے کہ عافیہ ان کے ساتھ یہودی
ایجنڈے پر کام کرے اور اپنی کمال ذہانت سے جو ٹیکنالوجی حاصل کی تھی وہ ان کے ساتھ شئیر کرے ۔جس پر عافیہ نے انکار کیا
جس کی سزا اب وہ بھگت
رہی ہیں
۔ ان کو پاکستان
سے محبت تھی اور وہ پاکستان میں رہنا
چاہتی تھیں ۔
پاکستان واپس آنے کے فورا بعد ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ساتھ اسلام آباد کیلیے کراچی ائیر پورٹ جاتے ہوئے راستے
سے ہی
اغوا ہو گئیں
-
پانچ سال تک ان کے اہل وعیال ڈھونڈتے رہے ۔ 2003 کے آخر میں افغانستان میں فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے
چند مجاہد
وں کو بگرام کی جیل میں رکھا گیا ، ان میں کچھ
2006 میں جیل سے فرار ہونے میں کامیاب
ہوئے ۔
ان میں سے ایک مجاہد جن کا نام ابو یحیٰ الیبی نے 2007 میں الجزیرہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہاں بگرام جیل میں قیدی
نمبر 650 کے نام سے ایک پاکستانی خاتون قید ہیں ۔ جس پر امریکی فوجی اتنا ہی ظلم کرتے ہیں جتنا کہ عام مرد قیدیوں کے ساتھ
کرتے ہیں ۔ جی ہاں یہ وہ امریکن ہیں
جو دنیا کو
وومن رائیٹس کا درس دیتے ہیں ۔
خبر لیک ہونے پر امریکہ نے مانا
کہ ہم نے قید کیا ہے ورنہ
چپ تھے ۔
2014 میں عافیہ صدیقی نے امریکن
قانون کو چیلنج کیا کہ
تم جھوٹے اور ڈھونگی
ہو ۔
Aafia Siddiqui |
انہوں نے جج رچرڈ برمن کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ انہیں امریکی قانونی نظام پر یقین نہیں ہے اور انہوں نے "اس ساری نا
انصافی کے نظام میں حصہ
لینے سے انکار کردیا جس
نے مجھے بار
بار سزا دی اور اذیت
دی"۔
ان کے اہل خانہ اور وکلاء کو
بہت زیادہ خوف لاحق
ہے۔
فوزیہ صدیقی
عافیہ صدیقی کی بہن ، فوزیہ صدیقی جو ہارورڈ سے تربیت یافتہ نیورولوجسٹ ہیں جو اب کراچی میں رہتی ہیں ، اپنی بہن کی رہائی کے
لئے خاطر
خواہ طریقے سے
ایک مہم چلا رہی
ہیں ، لیکن اس نے
کہا کہ اب اس سے
امید ختم ہو رہی ہے۔
فوزیہ اور ان کی
والدہ نے اپریل 2014 میں آخری بار فون پر اپنے
چھوٹے بہن بھائی کے
ساتھ عافیہ سے بات کی تھی۔
نومبر 2008 میں مقدمے کی سماعت کے آغاز میں ایک عدالت کے ماہر نفسیات نے کہا کہ وہ مقدمے کی سماعت کے لئے نا اہل
ہیں۔
عافیہ اب لازمی طور پر پچھلے کئی سالوں سے تنہائی کی قید میں ہیں اور اس وقت کے عرصے میں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اور
ہم جانتے ہیں کہ
اس نوعیت کی قید اور اذیت انسانی
دماغ کو بہت ساری چیزیں پہنچا سکتی ہے۔
عافیہ صدیقی کے بچے جو اب 17 اور 19 سال کے ہیں ، اور کراچی میں اپنی خالہ کے ساتھ رہ رہے ہیں ، اپنی والدہ سے ملنے کے
لئے کبھی امریکہ نہیں گئے ۔
افغان حکومت نے 2010 میں کراچی میں عافیہ صدیقی کے دو بیٹوں کو عافیہ کی بہن کے حوالے کیا۔ بچوں کے حقوق کی بات
کرنے والے امریکہ نے دونوں بچوں کو جن کی اس وقت عمریں پانچ اور سات سال تھیں قید رکھا اور جانوروں جیسا سلوک کیا
گیا ۔
جبکہ عافیہ صدیقی کا تیسرا بچہ سلیمان جو ان کےاغوا ہونے کے وقت چھ ماہ کا تھا ، ابھی بھی لاپتہ ہے اور اس کا خیال ہے کہ وہ مردہ
ہے۔انکشاف
ہوا
ہے کہ اغوا
کاروں نے بچے کو اسی وقت ہی مار دیا
تھا ۔
امریکی حکام کا اصرار
ہے کہ عافیہ
صدیقی القاعدہ کی ہمدرد ہیں
، ان ثبوتوں کی بنا پر جو ان کے اہل خانہ اور وکیلوں میں تنازعہ ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ گرفتاری کے وقت اس کے پاس دستاویزات تھیں جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ دھماکا خیز مواد اور کیمیائی ہتھیار کیسے
بنائے جاتے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں طلاق کے بعد القاعدہ کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کے بھتیجے عمار
البلوچی سے شادی
کی تھی۔
جبکہ اس بات کا ذکر پہلے ہی کر چکے ہیں کہ عافیہ ایک کمال کی سائینٹسٹ ہیں جنھوں نے امریکن کے ساتھ کیمیائی ہتھیا ر بنانے
سے انکار کیا اور
وہ پاکستان
آ گئیں۔ امریکن کو
یہ ڈر تھا کہ کہیں
پاکستان کو ایک اور
ڈاکٹر قدیر نا مل جائے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان کی رہائی کی درخواست کرتے ہوئے انہیں "قوم کی بیٹی" کہا تھا۔
ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے قیدی تبادلہ کبھی عمل میں نہیں آیا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان وضع کردہ حوالگی
معاہدہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے منظوری کا منتظر رہا۔
سابقہ حکمرانوں میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ امریکہ بہادر کے سامنے کچھ بول سکتے ۔ان کے تو وہ ائیر پورٹ پہ کپڑے اتار لیتے تھے ،
ننگا کر کے
تلاشیاں لیتے۔ ڈو مور پہ تو دوڑیں لگ جاتی تھیں سابقہ
حکمرانوں کی۔
جبکہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے Absolutely not کہہ کر امریکہ کو پاکستان میں اڈے نا دیکر پوری دنیا کو حیران
کر دیا ۔
اب اللہ تبارک و تعا لیٰ سے دعا ہے کہ ہماری بہن عافیہ صدیقی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور جلد ہی اپنی غائبی طاقت سے ان کی
رہائی کا بندو
بست فرمائے ،آمین ثمہ آمین
دعا گو: حمید احسن
0 Comments
for more information comments in comment box